حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے
اس سے میرا مۂ خورشید جمال اچّھا ہے​

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچّھا ہے​

دیکھیے پاتے ہیں عشّاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچّھا ہے​

ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے کیا
جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچّھا ہے​

قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے
کام اچّھا ہے وہ جس کا کہ میٰل اچّھا ہے​

خضر سلطاں کو رکھے خالقِ اکبر سر سبز
شاہ کے باغ میں یہ تازہ نہال اچّھا ہے​

ہم کو معلوم ہے جنّت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

بہ رنگ نغمہ بکھر جانا چاہتے ہیں ہم
کسی کے دل میں اتر جانا چاہتے ہیں ہم

زمانہ اور ابھی ٹھوکریں لگائے ہمیں
ابھی کچھ اور سنور جانا چاہتے ہیں ہم

اسی طرف ہمیں جانے سے روکتا ہے کوئی
وہ ایک سمت جدھر جانا چاہتے ہیں ہم

وہاں ہمارا کوئی منتظر نہیں پھر بھی
ہمیں نہ روک کہ گھر جانا چاہتے ہیں ہم

ندی کے پار کھڑا ہے کوئی چراغ لیے
ندی کے پار اتر جانا چاہتے ہیں ہم

انہیں بھی جینے کے کچھ تجربے ہوئے ہوں گے
جو کہہ رہے ہیں کہ مر جانا چاہتے ہیں ہم

کچھ اس ادا سے کہ کوئی چراغ بھی نہ بجھے
ہوا کی طرح گزر جانا چاہتے ہیں ہم

زیادہ عمر تو ہوتی نہیں گلوں کی مگر
گلوں کی طرح نکھر جانا چاہتے ہیں ہم

جب ترے نین مسکراتے ہیں
زیست کے رنج بھول جاتے ہیں
کیوں شکن ڈالتے ہو ماتھے پر
بھول کر آ گئے ہیں جاتے ہیں
کشتیاں یوں بھی ڈوب جاتی ہیں
ناخدا کس لیے ڈراتے ہیں
اک حسیں آنکھ کے اشارے پر
قافلے راہ بھول جاتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *